شب تھی بے خواب اک آرزو دیر تک
شہر دل میں پھری کو بہ کو دیر تک
چاندنی سے تصور کا در وا ہوا
تم سے ہوتی رہی گفتگو دیر تک
جاگ اٹھے تھے قربت کے موسم تمام
پھر سجی محفل رنگ و بو دیر تک
دفعتاً اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری
آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک
تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا
کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک
دل کے سادہ افق پر تمہی سے رہے
رنگ قوس و قزح چار سو دیر تک
رت جگے میں رہا خواب کا وہ سماں
کیفیت تھی وہی ہو بہ ہو دیر تک