شب و روز رقص وصال تھا سو نہیں رہا
کبھی تجھ کو میرا خیال تھا سو نہیں رہا
وہ جو بیقرارئ جان و دل تھی نہیں رہی
وہ جو ہجر تیرا محال تھا سو نہیں رہا
کبھی آنکھ میں جو مروتیں تھیں فنا ہوئیں
پس چشم اشک ملال تھا سو نہیں رہا
یہ تو اعتراف شکست ہے کہ مزید اب
کوئی محرم مہ و سال تھا سو نہیں رہا
وہ کہ چاند جس پہ کبھی غروب نہیں ہوا
یہاں اک وہ شہر جمال تھا سو نہیں رہا
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے آنکھ سے خواب کا
وہ جو رابطہ سا بحال تھا سو نہیں رہا
مجھے قتل کر کے معاملہ نہیں ہوگا ختم
کہ جو قتل پہلے کمال تھا سو نہیں رہا
مرا اعتبار عدم وجود سے اٹھ گیا
وہ جو زندگی کی مثال تھا سو نہیں رہا
شب ماہتاب میں رات گھٹنے کے ساتھ ساتھ
جو سمندروں میں ابال تھا سو نہیں رہا
ہے عجب مشقت وصل جس کی تھکن سے قبل
یہ بدن تھکن سے نڈھال تھا سو نہیں رہا