اپنی غربت یوں مٹاؤ تو کوئ بات بنے
لکھ پتی بیوہ جو لاؤ تو کوئ بات بنے
انگلیوں پر تو بہت ماں کو تم نچاتے ہو
اپنی بیوی کو نچاؤ تو کوئ بات بنے
آج بھی کل کی طرح چائے ہی منگوائ ہے
چار پیٹس بھی منگاؤ تو کوئ بات بنے
اپنی محبوبہ کے بھائ سے پٹو گے کب تک
اس کو منکوحہ بناؤ تو کوئ بات بنے
کب سے کوچے میں فقیرانہ صدا دیتے ہیں
تم اگر بام پر آؤ تو کوئ بات بنے
شربت دید کے جگ لوگ پئیں بھر بھر کے
گھونٹ بھر ہم کو پلاؤ تو کوئ بات بنے