یا رب کیسی زمین پہ آباد ہیں ہم
اس ارض کی صحرا میں کب آزاد ہیں ہم
تاریخ مستقبل کے لیے روداد ہیں ہم
اس عہدکی خوبیوں سے ناشاد ہیں ہم
اس بنجر کی مٹی میں ذرا نم کردیں
اس قحط کی ہوا کو ذرا کم کردیں
چھاؤں کے سائے تلے رہتے تھے
خوشی کے نالے ہر سُو بہتے تھے
غم جو بھی ہو، اس کو سہتے تھے
کبھی تو ناز سے ہم کہتے تھے
وحدت و اخوت کے نشان ہیں ہم
غیروں کی تباہی کے لیے طوفان ہیں ہم
آہ و بکا لگتی ہے صعاب زندگی میں
کوئی ہم نشین نہیں رکاب زندگی میں
کوئی امید مل نہ سکی اصحاب زندگی میں
طاقت نجات نہیں عِقاب زندگی میں
پہلی سی پھولوں میں ازدحام نہیں ہے
اس خزان بے موسم کا اختتام نہیں ہے
اس شوم الایام کی تخلیق ہوئی کیسی
آنسؤں اور خون کی تعلیق ہوئی کیسی
غیروں کے اشاروں سے تطبیق ہوئی کیسی
اس وحدت امت کی تمزیق ہوئی کیسی
معلوم نہیں کس بات کے خطاکار ہیں ہم
ہاتھوں میں دل لیے آشکبار ہیں ہم
اس نفرت کی فضا کو بھلا دیجئے
پھر سے اپنے خون کو گرما دیجئے
ٹوٹے ہوئے دلوں کو بہلا دیجئے
بہتے ہوئے آنسو کو پونچھا دیجئے
یوں ہی ہمارے زخموں کو مداوا ملے
بٹکے ہوئے راہزنوں کو ماوا ملے
پھر نئی امید نئے پیغام کے ساتھ
خوشیوں بھری صبح و شام کے ساتھ
منزل کی جستجو لیے انجام کے ساتھ
عہدرفتہ کی یادوں سے انتقام کے ساتھ
شورش و فتنے کی محلات زیر و زبر کردو
ہر قلب پریشان کی گہرائی میں اپنا گھر کردو