ظہور آفتاب رسالت سے پہلے تھے ظلمتوں کے اندھرے چھائے ہوئے
حسن کردارکے اجالوں میں آتے ہیں تاریکیوں کے ستائے ہوئے
وادی ء عشق میں رکھ کے قدم حضرت بلال یوں گویا ہوئے
ملکیت ہے جان مصطفی کی دل ہوں ان سے لگائے ہوئے
دیکھ کے پتھر شکم نبوت پرصحابی سے نہ دیکھا گیا
آؤچلیں سب بردعوت جابرہیں سب کی پکائے ہوئے
شوق دیدارمیں چھپائی بکری حلیمہ کی جنگل کے شیروں نے
پیش کرکے رسول پاک کوکھڑے تھے سرجھکائے ہوئے
عرش بھی کہوں قلب موء من کو مدینہ بھی کہہ کرپکاروں
جلوہ گرہیں اس میں مصطفی رب کائنات ہے سمائے ہوئے
قابل نہیں ہیں ہم کسی رعایت کے کردارہی کچھ ایسے ہیں
بطفیل رحمت حبیب کبریاء رب ہے تباہی سے بچائے ہوئے
معیارمحبت صدیق ؔ دیکھیے سرورکونین کا احساس امت عاصی دیکھیے
اٹھے گی جب اپنی قبروں سے بوجھ گناہوں کے اٹھائے ہوئے