شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے