شگفت گل کی صدا میں رنگ چمن میں آؤ
کوئی بھی رت ہو بہار کے پیرہن میں آؤ
کوئی سفر ہو تمہیں کو منزل سمجھ کے جاؤں
کوئی مسافت ہو تم مری ہی لگن میں آؤ
کبھی تو ایسا بھی ہو کہ لوگوں کی بات سن کر
مری طرف تم رقابتوں کی جلن میں آؤ
وہ جس غرور اور ناز سے تم چلے گئے تھے
کبھی اسی تمکنت اسی بانکپن میں آؤ
یہ کیوں ہمیشہ مری طلب ہی تمہیں صدا دے
کبھی تو خود بھی سپردگی کی تھکن میں آؤ
ہزار مفلس سہی مگر ہم سخی بلا کے
کبھی تو تم اہل درد کی انجمن میں آؤ
ہم اہل دل ہیں ہماری اقلیم حرف کی ہے
کبھی تو جان سخن دیار سخن میں آؤ
کبھی کبھی دوریوں سے کوئی پکارتا ہے
فرازؔ جانی فرازؔ پیارے وطن میں آؤ