یہ عداوتوں کا شہر ہے
یہاں تہمتوں کے انبار ہیں
یہاں بدگمانیوں کے پہاڑ ہیں
یہاں لہجے خارزار ہیں
یہاں نفرتوں کے ہار ہیں
یہاں غلام روحوں کی ہے حکومت
ان کے زہرآلود لہجوں سے
دل و روح گهٹے جارہے ہیں
ہم سب مرده سے جئے جارہے ہیں
ان غلام روحوں کو ہے بس اک آرزو،
لوٹ لیں وه ہم سے ہماری خودی ،
اسی تمنا میں بس سب ہی اندها دهند لڑے جارہے ہیں
سن لو! اے غاصبوں!
تم جیت کر بھی ہارو گے
اور ہم ہار کر بھی جیتنگے
اسی لیے تو خاموشی سے
وار پر وار کهائے جارہے ہیں
بهلا ان کی رہنمائی کیسے کرئے کوئی؟
وصف خضری جو ہوجائے عط
مشکل شاید اس ملت کی ہوجائے حل،
آجائے کوئی عیسی'
شاید کوڑھیوں کو آرام آجائے