جو اپنی فکر کی کرنوں کی جگمگاہٹ سے
شب سیاہ کے لبادے کو چاک کرتا تھا
جو اپنے عزم و یقیں اور استقامت سے
یزید وقت کی سازش کو چاک کرتا تھا
نکھارتا تھا جو ذہنوں کو فکر و دانش سے
خطائیں بھی وہ بڑے پن سے معاف کرتا تھا
بکھیر کر وہ لٹاتا خزانے حکمت کے
وہ بحرعلم کبھی جو خطاب کرتا تھا
وہ انقلاب کا سورج غروبِ شام ہوا
وفاء خلوص کا وہ عہد تھا تمام ہوا
وطن سے دور شہادت تیرا مقام ہوا
تیرا شعور اے رہبر ہے ہر سو عام ہوا
شہید ہوکے بھی سہرا فتح کا نام ہوا
تیری وفاء کو اے عمران یوں سلام ہوا
نہ روک پائیگی ظلمت تیرے اجالوں کو
شعور و فکر سے روشن تیرے خیالوں کو
تہرے لہو سے ملی انقلاب نو کی نوید
رکھے گا یاد مؤرخ تیرے حوالوں کو
تیرے لہو سے اجالوں کو پھر دوام ملا
حیات بخش دی بجھتے ہوئے چراغوں کو
تیرے لہو سے ملا حوصلے کا درس ہمیں
وفاء کی راہ دکھائی ہے چاہنے والوں کو
جو درس دیتا تھا اس پر عمل بھی کر ڈالا
وفاء طلب سے انوکھا عدل بھی کر ڈالا
جو وقت آیا تو جاں بھی نثار کر دونگا
یہ جملہ خون سے اپنے نقل بھی کر ڈالا
ہمارے ہونٹوں پہ پہلے ہی سسکیاں تھیں فقط
یوں تنہا چھوڑ کر ہم سے شغل بھی کر ڈالا
جس انقلاب کے نغمے تو گنگنا تا تھا
یقیں ہے اسکا ہی رستہ سہل بھی کر ڈالا
جبین وقت کے ماتھے سے ظلم و نفرت کی
کریہہ بدنما سلوٹ کو صاف کرنا ہے
یزید وقت نے ہم پر ستم جو ڈھائے ہیں
اب ہم نے سب ہی کا اس سے حساب کرنا ہے
وہ جس نے خون کے دریا یہاں بہائے ہیں
اسی فرعون کا جینا عذاب کرنا ہے
تیرے لہو کی قسم پاک سرزمیں کو ہمیں
نظام کہنہ کی ظلمت سے پاک کرنا ہے