بجلی کے یہاں کوئی بھی آثار نہیں ہیں
یہ واپڈا والے بھی وفادار نہیں ہیں
ہم پر بھی تو کچھ رحم کرو محکمہ والو
کھمبے تو ہیں دو چار ‘ مگر تار نہیں ہیں
مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی
بازار میں دیکھو تو خریدار نہیں ہیں
کیوں ہوتا ہے ایوانوں میں ہر روز تماشہ
کچھ عقل کرو ‘ مچھلی کے بازار نہیں ہیں
کشکول لئے پھرتے ہیں یہ غیر ممالک
ہم اتنے بھی اب مفلس و نادار نہیں ہیں
کیوں اپنے وسائل پر بھروسہ نہیں ہم کو
یوں لگتا ہے ہم صاحب کردار نہیں ہیں
ہم کو تو بیاں بازی کا کچھ شوق نہیں ہیں
ہم تو کسی لیڈر کے پرستار نہیں ہیں
جو اپنے طرفداروں کو ہر بار نوازیں
ہم ایسی حکومت کے طلبگار نہیں ہیں
ملتی ہوں مراعات جنہیں چپکے سے شوکت
وہ ایسی حکومت سے تو بیزار نہیں ہیں