تو کربلا نہیں تجھ میں مگر شباہت ہے
ستم کو جھیلتے رہنا بڑی سعادت ہے
حشر بپا تھا کبھی کربلا کے میداں میں
جو تجھ پہ ٹوٹی یہاں وہ بھی اک قیامت ہے
وہاں بھی خون کے پیاسے تھے شمر و ابن زیاد
یہاں بھی جان کسی کی نہیں سلامت ہے
وہاں بھی مست تھا طاقت میں وہ یزید پلید
یہاں بھی دل میں سبھی کے بھری عداوت ہے
وہاں بھی پیاس کے ماروں پہ بند تھا پانی
یہاں بھی شب کے خداؤں میں وہ شقاوت ہے
وہاں بھی لُوٹ کے خیمے جلا دیئے انکے
یہاں بھی وحشی درندوں میں وہ خباثت ہے
وہاں بھی صحراء میں لاشیں تھی جا بجاء بکھری
یہاں بھی جسم کے ٹکڑوں نے کی سجاوٹ ہے
وہاں بھی ظلم پر ظالم کو کچھ ملال نہ تھا
یہاں بھی خوش ہیں کسی کو نہیں ندامت ہے
تن ِ تنہاء جو ظلمت پہ جاکے ٹوٹ پڑئے
حسین ابن علی میں وہی شجاعت ہے
ہر ایک دل میں مکیں ہو حسین آپ کا غم
کہ اس میں رونا تڑ پنا بڑی عبادت ہے
چمک رہا ہے وہ پتھر لہو سے آج تلک
علی کے لعل کے خوں میں بڑی صباحت ہے
سپاہ حق کے سالار ذی نشاں ہیں وہ
ان ہی کے نام قیامت تلک قیادت ہے
کہا نبی نے کہ جنت میں نوجوانوں کی
حسن حسین کو زیباء وہاں سیادت ہے
وہ غم کو بانٹنے آئے تھے ز خم دے کے گئے
منافقانہ سیا ست کی یہ روایت ہے
پڑھے کا جو بھی میرے شعر وہ کہے گا یہی
تیرے کلام میں اشہر بڑی سلاست ہے