طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
Poet: Akbar Allahabadi By: zia, khi
طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا
بھری ہے انجمن لیکن کسی سے دل نہیں ملتا
ہمیں میں آ گیا کچھ نقص یا کامل نہیں ملتا
پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے
اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا
پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے
کبھی قاضی نہیں ملتے کبھی قاتل نہیں ملتا
حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر گیسو ہے
وہاں پہ بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا
یہ حسن و عشق ہی کا کام ہے شبہ کریں کس پر
مزاج ان کا نہیں ملتا ہمارا دل نہیں ملتا
چھپا ہے سینہ و رخ دل ستاں ہاتھوں سے کروٹ میں
مجھے سوتے میں بھی وہ حسن سے غافل نہیں ملتا
حواس و ہوش گم ہیں بحر عرفان الٰہی میں
یہی دریا ہے جس میں موج کو ساحل نہیں ملتا
کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ ؔدرس حکمت کو
میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا
ادھر تو آؤ مرے گلعذار عید کے دن
غضب کا حسن ہے آرائشیں قیامت کی
عیاں ہے قدرت پروردگار عید کے دن
سنبھل سکی نہ طبیعت کسی طرح میری
رہا نہ دل پہ مجھے اختیار عید کے دن
وہ سال بھر سے کدورت بھری جو تھی دل میں
وہ دور ہو گئی بس ایک بار عید کے دن
لگا لیا انہیں سینہ سے جوش الفت میں
غرض کہ آ ہی گیا مجھ کو پیار عید کے دن
کہیں ہے نغمۂ بلبل کہیں ہے خندۂ گل
عیاں ہے جوش شباب بہار عید کے دن
سویاں دودھ شکر میوہ سب مہیا ہے
مگر یہ سب ہے مجھے ناگوار عید کے دن
ملے اگر لب شیریں کا تیرے اک بوسہ
تو لطف ہو مجھے البتہ یار عید کے دن
گو بت ہیں آپ بہر خدا مان لیجئے
دل لے کے کہتے ہیں تری خاطر سے لے لیا
الٹا مجھی پہ رکھتے ہیں احسان لیجئے
غیروں کو اپنے ہاتھ سے ہنس کر کھلا دیا
مجھ سے کبیدہ ہو کے کہا پان لیجئے
مرنا قبول ہے مگر الفت نہیں قبول
دل تو نہ دوں گا آپ کو میں جان لیجئے
حاضر ہوا کروں گا میں اکثر حضور میں
آج اچھی طرح سے مجھے پہچان لیجئے
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں
یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا
خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے
مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا







