طویل رات ہے اور رات کے اندھیرے میں
میں جانتا ہوں کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا
مگر یہاں تو شہر کی یہی روایت ہے
کہ گھر سے جو بھی گیا ہے وہ گھر نہیں آتا
مگر یہ کیا کہ اندھیروں کا خوف دل میں لیے
تمام لوگ گھروں میں دبک کے رہ جائیں
اس انتظار میں ، شاید کوئی چراغ جلے
سیاہ افق سے سحر کی کوئی کرن پھوٹے
یہ انتظار کرو گے تو رات کی ناگن
نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو ڈس چکی ہوگی
اندھیری رات سے دہشت زدو سنو آو
ابھی بدن کے چراغوں میں سرخ ایندھن ہے
اسی کو کام میں لاو وگرنہ کل یہ بھی
کسی سڑک پہ یونہی رائیگاں نہ بہہ جائے
طویل رات ہے اس رات کے اندھیرے میں