یہ گلی بہت لمبی چوڑی ہے
دکھ زیادہ یاں‘ خوشی تھوڑی ہے
چھوڑ دئیے سب دھندے عاشق نے
سگ لیلی سے پریت جوڑی ہے
صبح یہیں گزرے شام یہیں بیتے
خون پیا اور چپل یاں توڑی ہے
ملنے کا امکاں تو معدوم ہے
پھر بھی گردن ہر سو موڑی ہے
آتے جاتوں کا حساب رکھا ہے
جگر جلایا ہے‘ نظر پھوڑی ہے
اب وہ سر بام آ جائیں گے
یہ کس نے ہوائ چھوڑی ہے؟
ایسی دیوانگی کا کیا کیجئیے
عاشق ہے اور یہ گلی نگوڑی ہے