نظروں میں خون دل میں عداوت لیئے ہوئے
وہ پھر سے اٹھ کھڑا ہے بغاوت کیئے ہوئے
رہزن کو روکنے کی دہائی تو دی مگر
تخریب کے اشارے تھے کیونکر دیئے ہوئے
رستے ہوئے زخم کا بتاتا ہے وہ علاج
جسکے کریدنے سے زخم یہ ہرئے ہوئے
کینہ بغض چھپائے وہ غم میں شریک ہے
لذت سے دیکھتا ہے میرے گھر جلے ہوئے
دست دراز آیا ان ہی چاکوں کی طرف
ذلت کے اس نگر میں تھے اب تک سلے ہوئے
مردے اکھاڑتا ہے لگانے کے واسطے
بہتان رہ گئے تھے جو باقی بچے ہوئے
تجھ سے جو مل گئے وہ سبھی پاک و صاف ہیں
جیسے کے دودھ سے ہوں فرشتے دھلے ہوئے
کسطرح جا کے انکو منائے اشہر وہاں
اپنے موقفوں پہ ہیں اب تک اڑے ہوئے