عزم ہو مصمم تو تیز آندھیاں کیا ہیں
حوصلے ہوں پختہ تو درد ناگہاں کیا ہیں
لاکھ الجھنیں ہیں گر سامنے پڑی ہوئی
جو گزر گئیں موجوں سے تو امتحاں کیا ہیں
التفات شامل بھی ناخدا کرے جب جب
رخ ہوا بدل دے تب تب، یہ بادباں کیا ہیں
اب مزاج بگڑے ہیں، خوشنما دلوں کے بھی
کوئی تو بتائے، اسباب درمیاں کیا ہیں
اعتبار چوکیداری پہ جب نہیں رہتا
لٹ بھی تب محافظ سکتے، تو کارواں کیا ہیں
رونما ہوئے ناصرسانحے بڑے اب تک
سخت جاں مگر جانے بھی جو سسکیاں کیا ہیں