عشق ایسا عجیب دریا ہے
جو بنا ساحلوں کے بہتا ہے
مغتنم ہیں یہ چار لمحے بھی
پھر نہ ہم ہیں نہ یہ تماشا ہے
اے سرابوں میں گھومنے والے
دل کے اندر بھی ایک رستہ ہے
زندگی اک دکاں کھلونوں کی
وقت بگڑا ہوا سا بچہ ہے
اس بھری کائنات کے ہوتے
آدمی کس قدر اکیلا ہے
آئینے میں جو عکس ہے امجدؔ
کیوں کسی دوسرے کا لگتا ہے