عشق کو ترک جنوں سے کیا غرض
چرخ گرداں کو سکوں سے کیا غرض
دل میں ہے اے خضر گر صدق طلب
راہرو کو رہنموں سے کیا غرض
حاجیو ہے ہم کو گھر والے سے کام
گھر کے محراب و ستوں سے کیا غرض
گنگنا کر آپ رو پڑتے ہیں جو
ان کو چنگ و ارغنوں سے کیا غرض
نیک کہنا نیک جس کو دیکھنا
ہم کو تفتیش دروں سے کیا غرض
دوست ہیں جب زخم دل سے بے خبر
ان کو اپنے اشک خوں سے کیا غرض
عشق سے ہے مجتنب زاہد عبث
شیر کو صید زبوں سے کیا غرض
کر چکا جب شیخ تسخیر قلوب
اب اسے دنیائے دوں سے کیا غرض
آئے ہو حالیؔ پئے تسلیم یاں
آپ کو چون و چگوں سے کیا غرض