یعقوب کو آنسو لہو کے رلاتا ہے عشق
آنکھوں میں خاک نجف ملاتا ہے عشق
عقل محوحیرت و تجسس تھی جب
منصور کو سولی پہ سلاتا ہے عشق
افہام و تفہیم ہیں بدن سے بدن تک
روح کو روح سے ملاتا ہے عشق
دل کے اندر اک تڑپ سی رہتی ہے جیسے
ہر پہر مجھ کو بلاتا ہے عشق
محبوب کی کج ادائیاں دکھا کر
آتش آرزو میں جلاتا ہے عشق