(جگری یار کی پہلی برسی پر)
جو میرے وہم و گماں میں رہتا ہے
جانے وہ کس جہاں میں رہتا ہے
جنت الفردوس اس کی منزل ہو
دل اس دعا کی گرداں میں رہتا ہے
اس کو گزرے بھی کئی دن گزرے
پھر بھی دور رواں میں رہتا ہے
زندہ اب بھی وہ مجھ کو لگتا ہے
ذکر جو دوستاں میں رہتا ہے
خلوص اس کے نے کئی دل جیتے
وہ ہر دل مہرباں میں رہتا ہے
دن میں تو دل کو بہلا ہی لیتا ہوں
شب میں تو غم کنعاں میں رہتاہے
باہر جانے کا جس میں رستہ نہیں
دل کے خانہ نہاں میں رہتا ہے
میری باتوں میں اس کی باتیں ہیں
وہ میرے جسم و جاں میں رہتا ہے