عمر گزری مری کتابوں میں
میں تو الجھا رہا ہوں بابوں میں
اک تہائی تو کٹی ہے سو کر
جاگتے بھی رہا ہوں خوابوں میں
مشکلوں میں نہ میرے کام آیا
جو لکھا تھا مرے نصابوں میں
زندگی حرف حرف صرف ہوئی
کچھ گناہوں میں کچھ ثوابوں میں
کیا تعجب کہ تنگ دست رہا
میں بہت کوڑھ تھا حسابوں میں
وہ نشہ کر جو ٹوٹتا ہی نہ ہو
کیا ملا تجھ کو ان شرابوں میں
آگیا رنگ و بو کے دھوکے میں
خار بھی تھے چھپے گلابوں میں
کچھ عزیزوں کا بس ہے کام یہیں
ہڈیاں بنتے ہیں کبابوں میں
دل ترستا ہے یوں وفاؤں کو
تشنگی جیسے ہو سرابوں میں
اس سے بڑھ کر نہیں رفیق کوئی
دوست ہوتا ہے جو خرابوں میں
ناصحِ وقت تو یہ تو بتا
امتحاں میں ہوں یا عذابوں میں