عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے
طلسماتی کوئی قصہ ہے دنیا
یہاں ہر دن نئی اک داستاں ہے
جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں
کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے
سروں پر آسماں ہوتے ہوئے بھی
جسے دیکھو وحی بے سائباں ہے
کسی دھرتی کی شاید ریت ہوگی
ہمارے واسطے جو کہکشاں ہے
اگر تھا چند روزہ موسم گل
تو پھر دو چار ہی دن کی خزاں ہے
جسے عمر رواں کہتے ہیں عنبرؔ
چلو دیکھیں کہاں تک رائیگاں ہے