آنکھ جب کھلی صبح دم عید کو میری
حسب معمول سنائیں بیگم نے صلواتیں ہمیں
میں نے کہا کہ بیگم خوف خدا کرو کہ عید کا دن ہے آج
مگر ، گرجتے برستے برتن دودھ کا تھما دیا ہمیں
کہا کہ لانا ہے دودھ پانچ کلو،بمعہ میوہ جات
کہ بچوں کے لیے شیر خورمہ بنانا ہے ہمیں
جب کہا کہ ہاتھ منہ تو دھو لینے دو ہمیں
بولیں کہ اس باسی منہ کو کیا دھونا ہے تمہیں
ہو گئے تیار پل میں چنو ، منو، پپو اور ببلو
لگے کہنے کہ عیدگاہ ساتھ جانا ہے ہمیں
لڑتے جھگڑتے راستے بھر آخرکار پہنچ گئے عید گاہ
مگر شور اتنا کیا کہ خطبہ بھی نہ سننے دیا ہمیں
فرمائشیں ہو گئیں شروع عید گاہ سے نکلتے ہی با ہر
چنو نے کہا غبارے، منو ، ببلونے کہا مٹھائی لے دو ہمیں
لوگوں کی دھکم پیل میں ہو گئے گم چنو اور منو
ڈھونڈتے ڈھونڈتے انہیں ہو گئی دوپہر ہمیں
پہنچے گھر تو بیگم کا تھا پارہ ایک سو بیس پر
سامنے مہمانوں کے کردیا ذلیل ہمیں
آئے جب رشتہ دار بیگم کے انسے ملنے عید
بچھ بچھ جاتی رہیں سڑا سڑا کر ہمیں
مگر جب آئے رشتہ دار مجھ سے میرے عید ملنے
منہ بسورا، ناک چڑھائی، اور گھور گھور دیکھا ہمیں
بچے تھے جا چکے سب کھیلنے کودنے کو باہر
کوئی بھی نہ تھا جو عیدی وصول کر دیتا ہمیں
کیا جب حساب شام کو دن بھر کے لین دین کا
معلوم ہوا کہ یہ عید بھی خسارہ دے گئی ہمیں
اگلی دفعہ کی عید سے سوچا ہے ہم نے یہ شفیق
چلے جائیں گے کہیں دور،کہ خسارہ دیتی ہیں عیدیں ہمیں