عید سے پہلے میری عید گُزر گئی
را ت خواب میں آنکھوں سے تیری تصویر گُزر گئی
نقاب میں چُھپا گلاب کچھ کہہ گیا مجھے
سانسیں ہوگئیں فَنا دل پہ ازیت گُزر گئی
سِگرٹ کی آڑ لے کر خود کو بہلانے لگا میں
اُٹھا جو دُھواں کمرے میں میری آہ نکل گئی
لب و رُخسار پہ راہ گئی خوشیاں ادوری میرے
ہوا یوں کہ آنکھوں سے آنسوں کی تسبی نکل گئی
اے مُرشد چُھوڑا قید میری یہ عشق کی دلدل سے
خُدا گوا ہے ساری زندگی اپنی تلخیوں میں گُزر گئی
خاموش لَبوں پہ تیری ذات کی تسبی چلی مُسلسل
زندگی تماشا ہے کبھی نفیس کبھی بے نفیس گُزر گئی