عید قرباں
عید قرباں کا درس ہے ایثار
زیست کا لمحہ لمحہ کرو جو شمار
فرصت زیست اب غنیمت ہے
اس کو مت بھولنا کبھی زنہار
بکرے
قربانی کے بکرے یوں بن گئے عوام
تاجروں نے بڑھائے سب اشیا کے دام
احمقوں کی جنت میں وہ سب رہتے ہیں
جو چاہتے ہیں قیمتوں میں آئے گا استحکام
قحط الرجال
کوڑے کے ڈھیر پہ ہڈی دیکھ کے جید جاہل
لپک کے ٹوٹ پڑا وہ اس پہ گو تھا بے حد کاہل
پلک جھپکتے میں اس نے منہ میں لی ہڈی تھام
پا ہی لیا اس جاہل نے اپنے جہل کا یہ انعام
لاف
اک متفنی جاہل کا تھا یہ افسون
لاف زنی ہی تھا اس کامضمون
چور محل کی خرچی لے کر چیختا تھاوہ
اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے افلاطون
غیبت
گزرے وقتوں کی بیان کہانی کرتے تھے
آسو جیسے موذی یاد پھر نانی کرتے تھے
رواقیت کے داعی نے بے پر کی اڑائی
اس کے آگے افلاطون بھی پانی بھرتے تھے
مسخرا
ساٹھ برس کی عمر میں وہ شباب پہ اٹھلاتا تھا
سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا تھا
پریوں کے اکھاڑے میں وہ راجہ اندر آسو
صبح و مسا کلیوں کو مسل کر وحشی ہنہناتا تھا