بروزِ عید نہ آیا کوٸی پیام اُس کا
بہت امید پہ اک سال انتظار کیا
خود اپنے ہاتھوں سے حسرت شہید کون کرے
ترے بغیر مری جان عید کون کرے
یہ زرق برق قبائیں یہ رونقیں یہ جمال
کوئی تو عید پہ ملتا گلے لگا کے مجھے
تری گلی سے کوئی اشکبار گزرا ہے
یہ کس کا عید کا دن سوگوار گزرا ہے
مری نظر کی یہ خواہش ہے آج عید کے دن
مجھے ملے نہ ملے دور سے نظر آئے