Add Poetry

غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا

Poet: امجد اسلام امجد By: Junaid, Peshawar
Gubhar Dashat Talab Mein Hai Raftagan Kya Kya

غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا

دکھا کے ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن
دلاسے دیتے ہیں دیکھو تو قاتلاں کیا کیا

گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا

پلٹ کے دیکھا تو اپنے نشان پا بھی نہ تھے
ہمارے ساتھ سفر میں تھے ہمرہاں کیا کیا

ہلاک نالۂ شبنم ذرا نظر تو اٹھا
نمود کرتے ہیں عالم میں گل رخاں کیا کیا

کہیں ہے چاند سوالی کہیں گدا خورشید
تمہارے در پر کھڑے ہیں یہ سائلاں کیا کیا

بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا

ہے پر سکون سمندر مگر سنو تو سہی
لب خموش سے کہتے ہیں بادباں کیا کیا

کسی کا رخت مسافت تمام دھوپ ہی دھوپ
کسی کے سر پہ کشیدہ ہیں سائباں کیا کیا

نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں
اگرچہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا

فنا کی چال کے آگے کسی کی کچھ نہ چلی
بساط دہر سے اٹھے حساب داں کیا کیا

کسے خبر ہے کہ امجدؔ بہار آنے تک
خزاں نے چاٹ لیے ہوں گے گلستاں کیا کیا

Rate it:
Views: 1252
29 Jun, 2021
Related Tags on Amjad Islam Amjad Poetry
Load More Tags
More Amjad Islam Amjad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets