نفرت زدہ الفاظ میں پیغام دیا ہے
آہوں میں سسکتا ہوا انجام دیا ہے
گونگے نہیں خاموش ہیں کمزور نہ سمجھو
کیوں ہم کو یہ ذلت بھرا دشنام دیا ہے
خوشیوں کے اجالے کی سحر ہم نے عطا کی
کیوں ہم کو اندھیروں کا یہاں بام دیا ہے
نظروں میں حقارت کا زہر بھر کے وطن میں
خیرات میں کوٹے کا ہمیں جام دیا ہے
بے نام و نشاں قوم کو پہنچاں عطا کی
پھر بھی ہمیں تحقیر زدہ نام دیا ہے
تم ہم کو ستاتے ہوئے یہ بھول چکے ہو
ہم نے تمہیں تکلیف میں آرام دیا ہے
الله کی رحمت کا شکر کیسے ادا ہو
سرکار کے صدقے ہمیں اسلام دیا ہے
سینچا ہے لہو دے کہ اشہر ہم نے یہ گلشن
غداری کا پھر بھی ہمیں الزام دیا ہے