غزل کہنے میں یوں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی
مگر اک مسئلہ یہ ہے کہ معیاری نہیں ہوتی
اگر چہرہ بدلنے کا ہنر تم کو نہیں آتا
تو پھر پہچان کی پرچی یہاں جاری نہیں ہوتی
سمندر سے تو مجبوری ہے اس کی روز ملنا ہے
بہت چالاک ہے لیکن ندی کھاری نہیں ہوتی
بتاؤں کیا مجھے محتاط رہنا آ گیا کیسے
نہ جانے مجھ پہ کیوں وحشت کوئی طاری نہیں ہوتی
سپاہی سے سپہ سالار بننا کتنا آساں ہے
مگر مجبور ہوں میں مجھ سے غداری نہیں ہوتی
ہوا کی شرط ہم کیوں مانتے کیوں اس طرح دبتے
ہمیں گر سانس لینے کی یہ بیماری نہیں ہوتی