غمِ حسین میں آنکھوں سے اشکباری ہوئی
یوں کربلا کے شہیدوں کی پرسہ داری ہوئی
حسین پیاسے رہے کربلا کی گرمی میں
اسی لیے تو جہاں میں سبیل جاری ہوئی
نہ پوچھ اصغرِ بے شیر کے تبسم سے
وغا کے وسط میں حرمل پہ مرگ طاری ہوئی
جلے ہیں خیمے بھی سادات کے سرِ صحرا
سپاہِ شمر تو پھر بھی ہے آج ہاری ہوئی
کوئی تو ڈھونڈ کے لائے حسن کے بیٹے کو
اندھیرا پھیلا تو خیموں میں آہ و زاری ہوئی