غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں میں‘ منہ سے مجھے بتا کہ یوں
پرسش طرزِ دلبری‘ کیجیے کیا‘ کہ بن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
رات کے وقت مے پیے‘ ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے‘ پر نہ کرے خدا کہ یوں
’’ غیر سے رات کیا بنی ‘‘ یہ جو کہا‘ تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا‘ اور یہ دیکھنا کہ یوں
بزم میں اس کے رُو برو‘ کیوں نہ خموش بیٹھیے!
اس کی تو خامشی میں بھی‘ ہے یہی مدعا کہ ’’ یوں ‘‘
میں نے کہا کہ ’’ بزمِ ناز چاہیے غیر سے‘ تہی ‘‘
سن کے‘ ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ ’’ یوں؟ ‘‘
مجھ سے کہا جو یار نے: ’’ جاتے ہیں ہوش کس طرح؟‘‘
دیکھ کے میری بیخودی‘ چلنے لگی ہوا کہ ’’ یوں ‘‘
کب مجھے کوجے یار میں‘ رہنے کی وضع یاد تھی!
آئینہ دار بن گئی‘ حیرتِ نقش پا کہ ’’ یوں ‘‘
گر تیرے دل میں ہو خیال‘ وصل میں شوق کا زوال؟
موج‘ محیطِ آب میں‘ مارے ہے دست و پا کہ یوں
جو یہ کہے کہ ’’ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟‘‘
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ ’’ یوں ‘‘
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل






