یہ کھلکھلاتے چہرے
یہ سہانے منظر
مصائب کی آند ھیوں میں
ٹمٹماتے ہوئے خوشیوں کے چراغ
یاس و نا امیدی کے آنگن میں
امید افزا اطفال کا غل
نغمہ و سرود کی محفل
فرطِ مسرت میں جھومتے مچلتے دل
غمِ دنیا سے دور
فکرِ آخرت سے پرے
یہ کبوترون کے جھنڈ جیسے
انسانی قافلے
منزل ِ عیش کی جانب محو پرواز
رنج نے بھی آج پہن کر راحت کا لباس
فرزندانِ عیش و مستی کی بیعت کی ہے
مگر بہار ِ عید میں
خزانِ الم کے کہر سے دو چار
آنکھوں میں منجمد آنسو لئے
پھٹے ہوئے ہونٹ ، مر جھایا ہوا چہرہ
بکھرے ہوئے بال سر پر
مفلس کی جھونپڑی کا چھپر ہو جیسے
غربت کی چوکھٹ پر
بیٹھا ہوا کسی کے انتظار میں ،اک یتیم
سر بگریباں
حقیقت سے مفرور خیالوں میں گم
دفعتاً
خیال کی رہگزر سے
وہ منتَظر آتا ہوا آیا نظر
قربِ یتیم یوں ہوا گویا
اےمیرے اجڑے ہوئے چمن کے
غنچہ پژمردہ
لو---
میں آیا ہوں تہمہیں بہلانے کے لئے
زخمِ دل کو مرہم لگانے کے لئے
یتیم بھی شکوہ سنج ہوا
کہاں تھے تم
کیوں نہ لی آج تک میری خبر؟
شفقت کا بھوکا ہوں
عاطفت کا پیاسا ہوں
کیا تمہیں معلوم نہ تھا؟
نہیں چاہئے مجھے جو بھی تم لائے ہو
بڑی مدت کے بعد آج ، تم آئے ہو
تم سے میں روٹھا ہوں
مجھ کو تم پیار نہ دو
بڑی مشکل سے
پدرِ گم گشتہ نے
اپنے لاڈلے کو منوایا
گود میں لے کر جو پھٹے ہونٹوں کو چوما
لہو کی لالی اس کے ہونٹوں پر بھی چڑھی
پسر کے اشک منجمد بہنے لگے
پدر کے سانسوں کی گرماہٹ سے
اتنے میں قریب ہی پٹاخوں کے
پھٹنے سے
کھل گئی یتیم کی آنکھ
ٹوٹا خیالی طلسم
خواب ہی سہی راحت رساں تھا
سراب ہی سہی کوثر نشاں تھا
ٹوٹا جو خواب
ہوا نالہ یتیم بلند
مگر غوغائے جشن عید کے طفیل
یہ نالے کس کے گوش گزار ہوئے ؟
صدا بصحرا ہوئے
غیب سے آئی آواز
فامالیتیم فلا تقہر
وامالسایل فلا تنھر