فراز بے خودی سے تیرا تشنہ لب نہیں اترا
ابھی تک اس کی آنکھوں سے خمار شب نہیں اترا
ذرا میں سوچ لوں کیا کام اس کو آ پڑا مجھ سے
کبھی وہ بام تنہائی سے بے مطلب نہیں اترا
مری پرسش کو آ پہنچا حسیں بندہ کوئی ورنہ
فلک سے آج تک میری مدد کو رب نہیں اترا
ستارا سا نظر آتا ہے اوپر سے جہاں پانی
میں خوش فہمی کے اس گہرے کنویں میں کب نہیں اترا
پشیمانی کے بعد اس کو گراؤں کیسے نظروں سے
کہ جب وہ بے وفا تھا میرے دل سے تب نہیں اترا
کبھی سرتاج مجھ بے تاج کو سہواً کہا اس نے
ابھی تک میرے سر سے نشۂ منصب نہیں اترا
تمنا ہے کہ چھیڑوں نغمۂ انسانیت لیکن
قتیلؔ اب تک مرے اعصاب سے مذہب نہیں اترا