لکھنے بیٹھاہوں بہت شوق سےروداداپنی
آرزو یہ ہے کہ سن لیں وہ بس فریاد اپنی
اشک اب تو بڑے بیتاب ہوے جاتے ہیں
ہاتھ سے نکلے ہوے خواب ہوے جاتے ہیں
دل کہاں جسم میں ، آنکھوں پے تلا رہتا ہے
خون دل آنکھ کے رستے سے ہی اب بہتا ہے
تجھسے کیا حب مقدم کا میں دعویٰ کرتا
میرے بس میں ہی تھا کیا اور میں بیان کیا کرتا
ہے حقیقت کہ گناہوں میں اٹا بیٹھا ہوں
اپنی ایمان کی دولت بھی لٹا بیٹھا ہوں
اے میرے ماہ تمنا ، میرے خورشید تمام
میری ہستی ہی تو ہے آپکی الفت کا پیام
میری آنکھوں کو کہاں جرّت دیدار تیری
پھر بھی حسرت تو ہے اس دل میں کہ دیدار کروں
میں کہ رہتا ہوں یہاں روح مدینے میں ہی ہے
زندگی بس تیری یاد میں جینے میں ہی ہے
میرے آقا جہاں پاس وہ الفاظ نہیں
کیسے کہہ دوں مجھے میرا ہی کچھ احساس نہیں
بس یہ عرضی ہے کہ دراب میں تمہارا دیکھوں
جس سہارے کہ لئے ہوں وہ سہارا دیکھوں
جسکی خاطر بنی نظریں وہ نظارہ دیکھوں
ہان مدینہ ،میں مدینہ، میں مدینہ دیکھوں