کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی
سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی!
پسند روح و بدن کی ہے دانمود اس کو
کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی
وجود صیرفی کائنات ہے اس کا
اسے خبر ہے یہ باقی ہے اور وہ فانی
اسی سے پوچھ کہ پیشِ نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی