فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ
وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا
کچھ اب کے ایسے کڑے تھے فراق کے موسم
تری ہی بات نہیں میں بھی کیا سے کیا نہ ہوا
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
شہید شب فقط احمد فرازؔ ہی تو نہیں
کہ جو چراغ بکف تھا وہی نشانہ ہوا