فلک پہ چاند جو روشن ہے یوں سحاب کے ساتھ
یہ استعارہ ترے رخ کا ہے نقاب کے ساتھ
فصیلِ جاں کے در و بام جو منور ہیں
کسی کی یاد چمکتی ہے آب و تاب کے ساتھ
مرے خلوص کی اس نے ذرا بھی قدر نہ کی
ملا تھا آج بھی لیکن کچھ اجتناب کے ساتھ
دلِ فگار کے جتنے نہاں تھے راز سبھی
وہ آشکار ہوئے آنکھ کے چناب کے ساتھ
خیالِ یار رہا ہجرتوں کے موسم میں
تمام زیست گزاری ہے اک سراب کے ساتھ
نہ روک آج مجھے بے حساب پینے دے
تمام عمر ہی پی ہے بہت حساب کے ساتھ
نہیں قبول مجھے میرِ کارواں ایسا
جو آشنا نہ کرے مجھ کو انقلاب کے ساتھ
تمہاری یاد میں سعدی نے اشک بوئے ہیں
سو انتظار میں گزرے گی اب عذاب کے ساتھ