شعلہ طور سے ظلمت کے اجالے لیکر
فکر ظلمت کے محلات جلانے ہونگے
جنکی سانسوں پہ غلامی کا ہے پہرہ اب تک
انکو آزادی کے کلمات سکھانے ہونگے
جو بنے گا یہاں طاقت کے تکبر میں خدا
اس کو لاٹھی کے کرشما ت دکھا نے ہونگے
جب افق پر یہاں سورج کی حکومت ہوگی
عہد ظلمت کے نشانات مٹا نے ہو نگے
اب بھی کچھ لوگ اندھیروں کے بنے ہیں حامی
ان کے ظلمت سے مفا دا ت پرا نے ہونگے
ظلم کے را ج میں جس نے بھی ستم ڈھا ئے ہیں
اب ہمیں چُن کے وہ ہی لوگ ستا نے ہونگے
اس سے پہلے تو یزیدوں کی حکومت گزری
اب جو آئینگے وہ قائد کے زما نے ہونگے
جسکے ہر گل میں محبت کی مہک ہو اشہر
ہم کو چاہت کے وہ باغات بسا نے ہونگے