فکر میری نکھار دے یارب
فن کے گیسو سنوار دے یارب
گوشہ ثور مں چھپا ھوں میں
مجھکو بھی یار غار دے یارب
اف یہ ذلت کی زندگی مولا
مرحلہ یہ گزار دے یارب
دین داروں کے پاس دین نہیں
دین داری،ادھار دے یارب
میرے احساس کی ندی ھے خموش
اس کو اک آبشار دے یارب
تیرے بندوں میں سرکشی ھے بہت
دین کو اقتدار دے یارب
آج باطل بھی انقلابی ھے
حق پرستوں کو عار دے یارب
متقی جو ھیں ، وہ ھیں سرکش بھی
نفس کو ان کے مار دے یارب
تیری آغوش میں سما جاؤں
تو بھی با نہیں پسار دے یارب
خار بھی آج چیختے ھیں عزیز
اس چمن کو بہار دے یارب ‘