قتل اپنوں نےکیاغیروں سے گلا کیا کرنا
دیکھ کے کترائیں جو ان سے ملا کیا کرنا
رات بھی ایسی صبح بھی ایسی تھی
سرزنش کرکے بھی دل کو بھلا کیاکرنا
جن سےملکےنہیںملتی تھی کوئ خوشی
ہرگھڑی انکےلیے سوچوںمیںڈھلاکیاکرنا
سبز موسم میں بھی پت جھڑکے عذاب
مستقل بھی اور مسلسل ہی جلا کیا کرنا
تیرے دامن میں غم زیست سواکچھ بھی نہیں
درد ہے سوز ہے آنسو ہیں خواہش کوسلاکیاکرنا
جو کبھی بدلا ہے اور نہ ہی کبھی بدلے گا
رات دن فکر میں اسکی یوں گھلا کیا کرنا
سائے سے ڈرنے وا لا دھوپ شنا سا ہے غزل
جب بجھے شمع تو سو رج کو جلا کیا کرنا