کافی ہے ہم کو بس تمہارا ہی سہارا آقا
تیری عطا سے ہو رہا سب کا گزارہ آقا
دھتکارتے ہیں لوگ جانے کس زعم میں مجھ کو
کہہ دو یہ منگتا ہے ہمارا ہے ہمارا آقا
صدقہ تمہارے نور کا جو کچھ جہاں میں آیا
پھر کیا قمر کیا شمس کیا کوئی ستارہ آقا
باغ ارم بھی دیکھ کہ روضہ تیرا شرمائے
حوروں نے اپنی زلف سے اس کو بہارا آقا
پھر جالیوں کے روبرو آجاؤں میں لجا کہ
پھر دیکھ لوں میں سبز گنبد اور منارہ آقا
اس بار بھی مہماں مدینے میں بنالو آقا
پھر سحری ؤ افطار ہو جائے خدارا آقا
قدسی قطاریں باغ جنت اور تیری دیوار
نقاش ازل نے تیرے گھر کو سنوارا آقا
اب تو مدینے کی عطا کر دو اجازت اسکو
یہ وارثی عشرت تمہارا ہے تمہارا آقا