قدم قدم پہ لطف ہم اٹھانے لگ گئے
حیات حادثے حسیں بنانے لگ گئے
میاں کسی نے دی نگر بسانے کی صدا
نکل کے دشت سے سو مجنوں آنے لگ گئے
تمھیں جو منزلیں بہت ہی آساں ہیں لگی
وہ پانے میں ہمیں تو ہیں زمانے لگ گئے
جی دشت میں ہمارا جس سمے لگا نہیں
تو نت نئے دیار ہم بسانے لگ گئے
سیاہی ہر سو پھیل جب گئی دیار میں
صراط جگنو کچھ ہمیں دکھانے لگ گئے
ہمارے دل پہ چھائی تھیں خزائیں جس سمے
حسیں نظارے بھی ہمیں تھکانے لگ گئے