قسمت میں ایسا دن بھی آئے گا
تو اپنا وعدہ وفا کر دکھائے گا
اس آس پہ بویا تھا نہال عشق
کہ درخت بن کر پھل بھی لائے گا
ریت کا گھروندہ بناؤ تو یہ یاد رہے
پانی کا ایک ہی ریلا بہا لے جائے گا
جب عداوت کا اندھیرا ہو ذہن میں
پھر کیسے سوچ کا دیا جگمگائے گا
ناز اٹھوانے کےلئے نہ روٹھو سب سے
میں تو ہوں اور کون تمہیں منائے گا
دولت معیار نہیں گریبی، امیری کا
دوست نہ ہو جس کا،غریب کہلوائےگا
اگر ملنا ہو تو مل جاؤ کسی دن
اشفاق کب تک وعدے پہ جی بہلائے گا