قصور بھی نہیں اور ایسی ریاست نہیں میری
تہذیب تر کروں ایسی سیاست نہیں میری
فقط ہر پہلو کو تہذیب کی نظروں میں اُتارا
جو بھی ہوں آج میں یہاں یہ وراست نہیں میری
اپنے ہو یا بیگانے ہو ہیں تو اسی ملک کے
کروں قوم سے بغاوت یہ سرافت نہیں میری
ہوئے تھے ایک زمانے میں چرچے کئی قوم کے
وہ تھی سیاست چال پر عقیدت نہیں میری