لطف اُن کا عام ہو ہی جائے گا
شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا
جان دے دو وعدہئ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا
شاد ہے فردوس یعنی ایک دن
قسمت خدام ہو ہی جائے گا
یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں
نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں!
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر
دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا
ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز
چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا
سائلو ! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا
یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو
ٹکڑے ٹکرے دام ہو ہی جائے گا
مفلسو اُن کی گلی میں جا پڑو
باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا
گر یوں ہی رحمت کی تاویلیں رہیں
مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا
بادہ خواری کا سماں بندھے تو دو
شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا
غم تو اُن کو بھول کر لپٹا ہے یوں
جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا
مٹ کر گر یوں ہی رہا قرضِ حیات
جان کا نیلام ہو ہی جائے گا
عاقلو ! اُن کی نظر سیدھی رہے
بوروں کا بھی کام ہو ہی جائے گا
اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر
بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا
اے رضاؔ ہر کام کا اک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا