ایک ہی ملاقات میں اتر آئی تاثیر اس کی
لو محبت بھی نکل آئی اسیر اس کی
جھیل آنکھوں میں بس اسی چہرے کا عکس
کتاب آنکھوں میں ہے لکھی تحریر اس کی
اک خواب سا جیسے کہ بسا رکھا ہو
اور ارمان سے سجا رکھی ہو تعبیر اس کی
اک عمر کی ریاضت سے سمجھے ہیں اسے
اک غزل سے ممکن ہے کہاں تفسیر اس کی
اک بار جو کیا تھا وعدہ ء وفا عنبر
عمر بھر رہی واجب پھر توقیر اس کی