لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
اک جھلک آج دکھا گنبد خضرٰی کے مکیں
کچھ بھی ہیں دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
سر پہ رکھ دیجے ذرا دست تسلی آقا
غم کے مارے ہیں ، زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
نام کس منہ سے ترا لیں کہ ترے کہلاتے
تیری نسبت کے تقاضوں کو بھلائے ہوئے ہیں
گھٹ گیا ہے تری تعلیم سے رشتہ اپنا
غیر کے ساتھ رہ و رسم بڑھائے ہوئے ہیں
شرم عصیاں سے نہیں سامنے جایا جاتا
یہ بھہ کیا کم ہے ، ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں
تری نسبت ہی تو ہے جس کی بدولت ہم لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں
بوسہ ء در سے نہ روک اب تو انھیں اے درباں
خود نہیں آئے، یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں
اللہ اللہ ! مدینے پہ یہ جلوؤں کی پھوار
بارش نور میں سب لوگ نہائے ہوئے ہیں
کیوں نہ پلڑا ترے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں