لکّھا ہوا جہاں کا فسانہ عجیب تھا
ہم ہی عجیب تھے نہ زمانہ عجیب تھا
سُنتا تھا وہ یا تھے ہم خود ہی سے ہمکلام؟
روٹھے ہوئے خدا کو منانا عجیب تھا
لاغر دھڑوں کا گوشت، نسلوں کے چیتھڑے
ہاں والیانِ شہر کا کھانا عجیب تھا
حیراں نہ کر سکی ہمیں دنیا کی کوئی بات
بس خاکچوں کا ہوش میں آنا عجیب تھا
محشر میں بول اُٹھیں گے جو تاب ہو مُنیبؔ
محفل سجا کے خود کو چُھپانا عجیب تھا
اِبنِ مُنیبؔ
(پروین شاکر کی زمین میں)