لہجہ تو اسکا اتنا بھی بدلا نہ تھا کبھی
وہ شخص میری زد سے تو نکلا نہ تھا کبھی
وہ قہقہوں کا درد سمجھتا بھی کس طرح
اب تک وہ اس مقام پہ پہنچا نہ تھا کبھی
روشن ہے ماہتابِ شبِ ہجر کس قدر
اتنا تو نامراد یہ چمکا نہ تھا کبھی
عکسِ قمر تھا جھیل پہ، بس جم گئی نگاہ
اس درجہ شوق اسے دیکھا نہ تھا کبھی
دہشت زدہ سا دیکھتا ہے مڑ کے بار بار
سائے سے اپنے پہلے جو ڈرتا نہ تھا کبھی
دنیا نے اس پہ جڑ دیئے الزام بےدھڑک
دامن پہ جس کے ایک بھی دھبّہ نہ تھا کبھی
گردش میں کیوں سیّارہئہِ الفت ہے ان دنوں
دنیا میں شمس اتنا اندھیرا نہ تھا کبھی