لے کر کوئی پیغام کبوتر نہیں آتے
اب غم بھی ترا روپ بدل کر نہیں آتے
کچھ بوریاں ایسی ہیں جو بیروں سے لدی ہیں
پر ان پہ کسی اور سے پتھر نہیں آتے
ہر صبح تو کھلتے نہیں نرگس کے حسیں پھول
ہر روز تو گلشن میں پیمبر نہیں آتے
ہر شخص لئے پھرتا ہے ہاتھوں میں سروں کو
ہاتھوں میں نظر اب کہیں خنجر نہیں آتے
بیمار کہیں ہو نہ پڑوسی چلو دیکھیں
اب رات میں اس سمت سے پتھر نہیں آتے
قد اپنا بڑھا لیتے ہیں بیساکھی لگا کر
جو لوگ مرے سر کے برابر نہیں آتے
اٹھ جاتے ہیں بے ساختہ پاؤں تری جانب
ہم در پہ ترے سوچ سمجھ کر نہیں آتے
دروازہ بھلا دیتا ہیں اک دن انہیں عشرتؔ
جو لوگ کہ راتوں میں بھی گھر پر نہیں آتے